گلے سڑے آم چننے والی خاتون — اور ایک سادہ سی گزارش

Invalid Date (NaNy ago)

ماخذ (Source): یہ تحریر "Mad Scientist Journal" نامی کتاب/مجلہ سے ماخوذ ہے۔

گلے سڑے آم چننے والی خاتون

اور ایک سادہ سی گزارش (request)

تھلے والا کسی سے الجھا ہوا تھا۔ قریب جا کر معلوم ہوا کہ ایک خاتون کچھ پھل اُدھار (on credit) لینا چاہ رہی ہیں، اور وہ انکار (refusal) کر رہا ہے۔ لیکن جب بات کی گہرائی (depth) میں گیا، تو ایسا لگا جیسے دل پر کوئی بوجھ (burden) سا آن پڑا ہو۔ یکایک خاموشی نے گرفت (grip) میں لے لیا، جیسے کسی نے دل کو جھنجھوڑ (shake) کر جگا دیا ہو۔

یہ کوئی لڑائی نہ تھی، نہ ہی تُند و تیز (harsh) جملوں کا تبادلہ۔ بس ایک سادہ، نرم سی التجا (plea) تھی — ایک مہذب (respectful) سی درخواست (request)۔

نظر بے اختیار اُس خاتون کی تھیلی پر جا پڑی۔ آم تو تھے، مگر سارے کے سارے گلے سڑے (rotten), باسی (spoiled), اور اکثر ایسے کہ کھانے کے قابل بمشکل (barely) چند ٹکڑے ہی نکلتے ہوں۔ وہی آم، جنہیں ہم چننے کے دوران بے دلی (uninterest) سے ایک طرف کر دیتے ہیں۔ جنہیں خریدنا تو دور، چھونا بھی گوارا (bearable) نہیں کرتے۔

تو پھر سوال یہ تھا: یہ گفتگو کس بات پر ہو رہی تھی؟ خاتون اتنی دل گرفتہ (distressed/saddened) کیوں تھیں؟

ناراضی (displeasure) سے میں نے پھل والے کو ٹوکا:
“بھائی! آپ نے یہ خراب آم کیوں دیے؟ ان کو تازہ آم دو!”

وہ بےحد سکون (calmness) سے بولا:
“باجی نے خود چنے ہیں یہ آم۔ اور میں یہ دو سو روپے کلو والے آم، انہیں محض سو روپے کلو دے رہا ہوں۔ اب بجائے اس کے کہ سودا مکمل (finalize) کرتیں، یہ مجھ سے کہہ رہی ہیں، ‘بھائی، کیا میں بعد میں پیسے دے دوں؟’ بھلا یہ کوئی بات ہوئی؟”

یہ سُن کر دل نے مان لیا — شاید خاتون کی ہی خطا (fault/mistake) ہو۔

مگر خیالوں کی اس رو میں ڈوبا ہوا تھا کہ وہ خاتون آہستہ سے، حسرت (longing)- بھری نظر کے ساتھ، وہ تھیلی تھلے پر رکھ کر خاموشی سے پلٹ گئیں... ایک لفظ کہے بغیر۔

گھر پہنچ کر ماں سے تذکرہ (mention) کیا۔ اور جب اُنہوں نے بات کا دوسرا پہلو (perspective) دکھایا، تو دل شرمندگی (shame/guilt) سے بھر گیا، آنکھیں جھک گئیں۔

ماں نے بتایا:
“جب میں چھوٹی تھی، تو تمہاری نانی اماں بھی اکثر بازار سے گلے سڑے آم لایا کرتی تھیں۔ اُنہیں دھو دھا کر، چھیل کر، بڑی محنت (effort) سے جو تھوڑا بہت قابلِ استعمال (usable) ہوتا، وہ بچوں میں بانٹ دیا کرتی تھیں۔ بس اتنا کہ بچوں کی خواہش (desire), موسمِ گرما کا ذائقہ (taste of summer) چکھنے کی، ادھوری (unfulfilled) نہ رہ جائے۔”

یہ سنتے ہی اندر کچھ ٹوٹ سا گیا۔ اپنے سوچے گئے فقرے، اپنے اندازے (assumptions) — سب پر ندامت (regret) ہوئی۔

ہم اکثر ظاہری منظر (outward appearance) دیکھ کر فیصلہ (judgment) کر لیتے ہیں، مگر ہمیں کیا خبر کہ دوسروں کی مجبوریاں (constraints/helplessness) کن روپ (form) میں سامنے آتی ہیں؟

کبھی وہ ایک پھیکی (faded), گلی سڑی (decayed) تھیلی ہوتی ہے —
اور کبھی، صرف ایک سادہ سی گزارش (request)۔